میانمار کی فوج نے ملک کی شورش زدہ راکھین ریاست میں اپنی کارروائی ختم
کردینے کا دعوی کیاہے۔ وہاں چار ماہ سے اقلیتی مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی
جارہی تھی۔ جس کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ یہ انسانیت کے خلاف
جرائم اور نسلی صفائے کے مترادف ہے۔ 9اکتوبر کو بنگلہ دیشی سرحد کے نزدیک
سلامتی چوکیوں پر حملوں میں 9 پولس والے مارے گئے تھے۔ اس کے بعد سے
سیکورٹی آپریشن چل رہا تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق تب سے اب تک 69 ہزار
روہنگیا مسلمانوں نے برما سے فرار ہوکر بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے۔
اس تشدد پر ایک مرتبہ پھر ساری دنیا سے نکتہ چینی کی گئی ہے کہ میانمار کی
لیڈر آنگ سان سوکی نے مسلم اقلیت کے اوپر ہونے والے ظلم وستم کو روکنے کے
لئے کچھ نہیں کیا ہے۔ نوبل انعام یافتہ سوکی کی قیادت والی حکومت نے راکھین
میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں سے انکار کیا ہے۔ وہاں روہنگیا
مسلمانوں کو اجتماعی طور سے ہلاک کیا گیا ہے اور ان کی اجتماعی عصمت دری کی
گئی ہے۔ نیز کہا کہ وہاں جو مہم چلائی جارہی ہے وہ بغاوت فرو کرنے کی
قانونی کارروائی ہے
میانمار کے صدارتی ترجمان نے کہا ہے کہ فوجی کمانڈروں کی تازہ اطلاعات کے
مطابق بغاوت مخالف کاروائی میں سو سے بھی کم لوگ مارے گئے ہیں۔ بودھ
اکثریت والے برما میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کئی نسلوں سے تعصب برتا
جارہا ہے۔ انہیں بنگلہ دیش سے آئے غیر قانونی مہاجر سمجھا
جاتا ہے۔ انہیں
شہریت نہیں دی گئی ہے اور اسی وجہ سے کوئی حقوقی بھی نہیں ہیں۔ ان میں سے
11 لاکھ تو شمال مغربی میانمار میں نسل پرستی جیسے حالات میں رہنے کو مجبور
ہیں۔
قومی سلامتی کے نئے مشیر تھانگ تن کے حوالے سے کہا ہے کہ شمالی راکھین میں
اب صورتحال مستحکم ہے ۔فوج کی کارروائی رک چکی ہے کرفیو میں نرمی کی گئی ہے
۔ اب وہاں صرف امن برقرار رکھنے کے لئے پولیس تعینات کی گئی ہے۔ انہوں نے
ایک میٹنگ میں سفارتکاروں اور اقوام متحدہ کے نمائندوں کو بتایا کہ ضرورت
سے زیادہ طاقت کا استعمال اور انسان حقوق کی پامالیوں اور بنیادی جرائم کے
لئے کوئی بہانہ نہیں ہوسکتا۔ ہم نے یہ دکھا دیا ہے کہ جہاں ظلم و زیادتی کے
واضح شواہد ہیں وہاں ہم کارروائی کے لئے تیار ہیں۔ میانمار کے
صدارتی دفتر کے افسران نے تصدیق کی ہے کہ راکھین میں فوجی کارروائی ختم
ہوگئی ہے تاہم امن و سلامتی برقرار رکھنےکے لئے خطہ میں فوج تعینات رہے گی۔
میانمار کی فوج نے اس پر کوئی رائے زنی نہیں کی ہے ۔ سو کی نے مسلم اقلیت
کے خلاف زیادتیوں کے الزامات کی جانچ کرانے کا وعدہ کیا تھا جس کے بعد
جرائم کی تحقیقات کے لئے فوج اور پولیس کی علیحدہ علیحدہ ٹیمیں قائم کی
ہیں۔ تشدد کی وجہ سے بھاگے پناہ گزینوں کے مسئلہ سے نمٹنے والے اقوام متحدہ
کے دو سینئر افسران نے رائٹر کو بتایا کہ فوجی کارروائی کے دوران ایک
ہزارسے زیادہ روہنگیا مسلمانوں کو ہلاک کردیا گیا۔